Thursday, January 2, 2025 | 4:00 - 6:00 PM | Lahore Museum Auditorium The Mall, Lahore
لاہور میوزیم ہسٹری سوسائٹی اور گرمانی مرکز ِ زبان و ادب نے 2 جنوری 2025 کو " Towards Peoples' Histories in Pakistan: (In)audible Voices, Forgotten Pasts " کی تقریب ِ رونمائی کا انعقاد کیا۔ یہ تقریب لاہور میوزیم آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی جس میں محققین ، طلباء اور تاریخ سے دلچشپی رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور کتاب کے اہم موضوعات پر تبادلۂ خیال کیا ۔
کتاب، جسے ڈاکٹر اسد علی اور ڈاکٹر کامران اصدر علی نے مرتب کیا ہے، پاکستان کی تاریخ میں نظرانداز کی گئی آوازوں اور بھولی بسری کہانیوں کو اجاگر کرتی ہے، غالب تاریخی فریم ورک کو چیلنج کرتی ہے اور عوامی مرکزیت کے حامل تاریخوں کو دوبارہ مرکز پر لانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس تقریب میں ممتاز اور عالمی شہرت یافتہ محقیقن نے شرکت کی، جن میں سے بیشتر اس کتاب کے ابواب کے مصنف بھی ہیں ۔ اس تقریب کی میزبانی علی عثمان قاسمی اور سارہ ہمایوں نے کی۔ شرکاء گفتگو نے پاکستان میں تاریخ نویسی کی سیاست کے حوالے سے وسیع تر موضوعات پر اظہارِ خیال کیا۔
گفتگو کا آغاز ڈاکٹر علی عثمان قاسمی کے ایک دلچسپ سوال سے ہوا جس میں انہوں نے کتاب کے عنوان میں "peoples" (لوگوں) کے تصور پر سوال اٹھایا۔ ڈاکٹر کامران اصدر علی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے لفظ "peoples" کی نوعیت میں پائی جانے والی کثرت کو اجاگر کیا اور بتایا کہ یہ کتاب یک طرفہ، ریاستی مرکزی بیانیوں سے ہٹ کر تاریخ کے مختلف، مقامی تجربات کو دریافت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہاں “people”کا مطلب مختلف کمیونٹیوں، شناختوں اور تحریکوں کی کثرت ہے جن کی آوازیں عموماً مرکزی تاریخ نویسی میں سنائی نہیں دیتی ہیں۔
ڈاکٹر کامران اصدرعلی نے پاکستان میں 1960 کے دوران بائیں بازو کی تحریکوں کی اہمیت اور ان کے سماجی و سیاسی اثرات پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تحریکیں ریاستی بیانیے کے خلاف ایک متبادل نقطہ نظر فراہم کرتی ہیں اور ترقی پسند سیاست کا ایک مختلف خاکہ پیش کرتی ہیں۔
فریدہ شہید نے پاکستان میں نسوانی تحریکوں کے چیلنجز اور سنگ میل کی وضاحت کی۔ انہوں نے بتایا کہ خواتین کی آوازیں اور جدوجہد نہ صرف عوامی اور سیاسی میدانوں میں انقلاب کا پیش خیمہ ہیں بلکہ ریاست اور معاشرے میں موجود پدرشاہی ڈھانچوں کی مخالفت بھی کر رہی ہیں۔
حمیرا اقتدار نے پاکستان کے قومی بیانیوں میں queerتاریخوں کے خاموش کیے جانے پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ان نظرانداز کی گئی آوازوں کو ہماری تاریخ کے مطالعے میں شامل کرنا ضروری ہے، کیونکہ ان کا مٹ جانا ایک محدود اور نامکمل شناخت اور تاریخ کے تصور کو فروغ دیتا ہے۔
امین جعفر نے پاکستان کے ثقافتی اور روحانی منظرنامے میں درگاہوں کی متنوع روایات کا جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے درگاہوں کے ورثے کے گرد تنازعات پر بات کی اور یہ وضاحت کی کہ یہ درگاہیں نہ صرف عقیدت کا مرکز ہیں بلکہ مزاحمت کے حوالے سے بھی نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ہاشم بن رشید نے پاکستان کی تاریخ میں فیصلہ کن لمحوں پر ترقی پسند صحافت کے اہم کردار کا تجزیہ کیا۔ انہوں نے میڈیا، سیاست اور مزاحمت کے تقاطع پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ترقی پسند صحافت نے آمرانہ بیانیوں کو چیلنج کیا۔
میزبان علی عثمان قاسمی اور سارہ ہمایوں نے بڑی مہارت سے اس گفتگو کی رہنمائی کی اور شرکائے گفتگو اور سامعین کے درمیان پرجوش تبادلہ خیال کو فروغ دیا۔ گفتگو میں قوم پرستی، محنت کش تحریکوں، طلباء کی سیاست، اور 1971 کی جنگ کے متنازعہ ورثے جیسے وسیع تر موضوعات پر بھی تفصیل سے بحث کی گئی۔تقریب کا اختتام ایک بھرپورسوال و جواب کے سیشن پر ہوا، جہاں سامعین نے تاریخ کو دوبارہ لکھنے، یادداشت کی سیاست، اور خاموش آوازوں کو سننے کے طریقہ کار پر اہم سوالات کیے۔شرکائے گفتگو نے تاریخی تحقیق کی مشترکہ نوعیت اور یکسان بیانیوں کی مخالفت کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔