top of page
Post: Blog2_Post

معاصر ہندوستانی اردو ناول: مذاکرہ و خواندگی

Friday, September 30, 2022 | 4:00 PM – 6:00 PM | A-8, Top Floor, Academic Block, LUMS


معاصر ہندوستانی اردو ناول: مذاکرہ و خواندگی

(The Contemporary Indian Urdu Novel: A Literary Discussion)

ادبی نقطہٴ نظر سے اکیسویں صدی کو ناول کی صدی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ پوری دنیا اور خصوصاً برصغیر میں ناول

ایک مقبول ادبی صنف بن چکا ہے۔ اگرچہ گزشتہ بائیس برسوں میں سرحد کے دونوں اطراف سیکڑوں ناول لکھے گئے، جن میں درجن بھر نہایت عمدہ بھی گردانے جاسکتے ہیں، تاہم پاکستانی اور ہندوستانی اردو ناول اپنے موضوع و اسلوب کے اعتبار سے قدرے مختلف ہیں۔ اس سلسلے میں گرمانی مرکز زبان و ادب، لمز نے ایک پروگرام معاصر ہندوستانی اردو ناول: مذاکرہ و خواندگی منعقد کیا تھا۔ اس نشست میں ہندوستان کے دو ممتاز نقاد، ڈاکٹر شافع قدوائی (علی گڑھ، انڈیا) اور ڈاکٹر سرور الہدیٰ (دہلی، انڈیا)، نے اِن امتیازات پر تبا دلہ خیال کیا۔ اس کے علاوہ عبدالصمد نے اپنے ناول دوگززمین کا ایک باب بھی پڑھ کر سنایا۔

Event Coverage


گرمانی مرکز زبان و ادب ،لمز نے ’’معاصر ہندوستانی اردو ناول: مذاکرہ وخواندگی‘‘ پر ایک نشست کا انعقاد کیا۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیّر نے میزبانی کے فرائض سرانجام دیے انھوں نے تمہیدی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ناول کسی ایک انسانی طبقے کا نمائندہ نہیں ہے۔ ناول ایک جمہوری صنف ادب ہے۔ تقسیم ہند سے صرف جغرافیہ ہی تقسیم نہیں ہوا، تاریخ ،کلچر اور زبان بھی تقسیم ہوئی۔ اردو بھی تقسیم ہوئی۔ پاکستان میں اسے قومی زبان کا مرتبہ ملا، جب کہ ہندوستان میں یہ مسلمانوں کی زبان قرار دی گئی اور اس بنا پر اسے حاشیے پر جگہ ملی۔ اس کا اثر رفتہ رفتہ دونوں ملکوں میں ، اس زبان میں لکھے گئے ادب پر پڑا۔ یہ اثر ہمیں تنقید، شاعری اور فکشن میں نظر آتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اردو کی روایت، گنگاجمنی ،سیکولر روایت ہے،جب کہ پاکستان میں اردو کی روایت ہندمسلم تہذیب سے ہوتی ہوئی، مسلم قومی روایت کی حامل سمجھی گئی ہے۔ انھوں نے اکیسویں صدی کو ناول کے boom کی صدی کہا۔


معروف ہندوستانی ناول نگار عبد الصمد (پٹنہ۔انڈیا) نے اپنے تازہ ترین ناول سسٹم کا ایک باب پڑھ کر سنایا ۔جس میں واحد متکلم نے ان تجربات کو پیش کیا جو پولیس کی نوکری میں اسے پیش آئے۔ وہ ایک دین دار گھرانے کا پروردہ ہے مگر وہ سسٹم کے جال میں ایسا پھنستا ہے اس کے اندرون بیٹھے اسباب ڈھونڈنےپڑجاتے ہیں۔


ڈاکٹر سرورالہدیٰ (دہلی ۔انڈیا)نے معاصر ہندوستانی ناول نگاروں اور ناول کی جہتوں پر مفصل گفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ ناول کا کوئی مخصوص اسلوب ایک عہد کی نمائندگی نہیں کرسکتا۔ ہمیں ایک سے زیادہ اسالیب کے ناولوں کی مدد سے عہد کو سمجھنا چاہیے۔ انھوں نے سمندر منتظر ہے، خواب سراب، آخری سواریاں، کئی چاند تھے سر آسماں اور مرگ انبوہ پرمفصل گفتگو کی۔


ڈاکٹر شافع قدوائی (علی گڑھ۔انڈیا ) نے صدارتی خطبے میں ناول،ادب اور تاریخ کے باہمی رشتے پر بات کی۔ انھوں نے پہلے اور موجودہ عہد کے ناولوں کے موضوعات پر گفتگو کی۔ پہلے ناول کے موضوعات میں عشق،اچھائی، بدلے اور تلاش کے موضوعات حاوی ہوا کرتے تھے ۔اب ناول میں ٹیکنالوجی کا ذکر ملتا ہے ۔ وبا پر گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے اسے Divine Punishment تصور کیا جاتا تھا، اب نہیں۔ معاصر ہندوستانی خواتین ناول نگاروں کے بارے میں حاضرین کے پوچھے جانے پر انھوں نے ذکیہ مشہدی، ثروت خان ، رینو بہل اور ترنم ریاض کا ذکر کیا۔


ڈاکٹر نضرہ شہباز خان نے مہمان مقررین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن گرمانی مرکز زبان و ادب کے لیے بڑا دن ہے۔ آج یوں معلوم ہو رہا ہے کہ ویزہ ، خاردارتاریں اور فاصلے زوم نے مٹا دیئے ہیں۔


The Gurmani Center for Languages and Literature at the Lahore University of Management Sciences, LUMS, hosted an enlightening session titled “The Contemporary Indian Urdu Novel: A Literary Discussion” that explored the evolving genre of the Indian Urdu novel in the twenty-first century and tackled crucial questions regarding its wider socio-political implications. The subject was adequately addressed through critical commentary offered by three stellar Urdu critics and fiction writers from India who partook in the session virtually (in order of their presentations): Dr. Abdus Samad, author of eleven novels and several collections of short stories and winner of, among other prestigious awards, the Life Achievement Award from the Urdu Academy in Bihar; Dr. Sarwar-ul-Huda, Associate Professor at the Department of Urdu at Jamia Millia Islamia in New Delhi; and Dr. Shafey Kidwai, Chairman of the Department of Mass Communications at Aligarh Muslim University.


Dr. Nasir Abbas Nayyar (LUMS), Pakistan’s eminent literary critic and an award-winning author of the Urdu language opened the session as the host. He provided a brief historical overview of factors shaping the contemporary form of the Urdu novel, especially in India, and the contribution of twenty-first century socio-political movements in this process. This prelude not only set the stage for the discussion that followed but also offered a context to the audience helping them keep pace with the scholarly exchange of ideas.


The first presenter was Dr. Abdus Samad who read an excerpt from his latest Urdu novel System. His narrative offered a glimpse of the shifting thematic concerns of the contemporary Indian Urdu novel, thus providing an apt prelude to the subsequent discussions by Dr. Muhammad Sarwarul Hoda and Dr. Shafey Kidwai. Dr. Hoda shed light on how the Indian Urdu novel illustrates a preoccupation with the personal human experience, often at the expense of the larger socio-political contexts that it occurs in. He argued that without creative engagement with historiography and culture, a novelist cannot be born and the tendency to let the personal subsume the political often yields little more than what he called “thinking in pieces, or small canvases.”


Dr. Shafay Kidwai added another dimension to the discussion by highlighting the influence of digital technology on the Indian Urdu novel. He argued that the construction of an immersive virtual reality in the modern age distorts the human perception of reality and consequently, of realism in the Indian Urdu novel, which is increasingly gravitating toward a postmodernist skepticism of reality and truth.

The session concluded with a note of thanks by Dr. Nadhra Shahbaz Khan, Director of the Gurmani Center for Languages and Literature. Drawing upon her experience as an art historian, Dr. Khan stated that the novel to her is no less than “sketching pictures with words” that carry all nuances of narrative paintings. The session was instrumental in opening up the debate not only on what the contemporary Indian Urdu novel is, but also what it offers to its readers across the border and beyond.


Commentaires


bottom of page